گوریلاکمانڈر شہید آصف بلوچ | ڈاکٹر جلال بلوچ

, ,

وہ شخص رہنما ہوتا ہے، جو اپنے ہمنوائوں کو اپنے عمل و کردار سے نہ صرف متاثر کرے بلکہ سماج کو متحرک کرنے میں بھی کلیدی کردار کا حامل ہو۔ جس دورسے ہم گزررہے ہیں بلوچ سماج میں ایسے دسیوں کردار ہم دیکھ سکتے ہیں جنہوں نے آزادی کی تحریک میں ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے جنہیں بیان کرنا چارپیرائے میں ممکن ہی نہیں ! ہاں شاید اوراق کے انبار بھی کم پڑجائیں ۔ کیوں کہ تاریخ کی خوبصورتی دوبالا کرنے والے کسی کردارپہ قلم کو جنبش نہیں دی جاتی، نہ الفاظ کا چنائوکرنے میں دماغ سے کام لینا پڑتا ہے بلکہ ایسی ہستیوں کا کرداراور عمل قلم کی حرکت اور الفاظ کی روانی کا سبب بنتے ہیں۔ انہی ہستیوں میں سے ایک ماسٹر آصف بلوچ بھی ہے جس پہ نہ صرف قوم نازاں ہے بلکہ مریدانِ وقت خود کو اس کے سانچے میں ڈالنے کی تگ و دو میں مصروفِ عمل ہیں تاکہ قلندرِ وقت کے عشق (آزادی)کا حصول جلد ممکن ہوسکے۔ 

       ماسٹر آصف بلوچ (مکیش) سے میری پہلی ملاقات جون دوہزار پندرہ میں ہوا جب میں کولواہ کے تنظیمی دورے پہ تھا۔ اس وقت ماسٹر مکیش بلوچ نیشنل موومنٹ میں زونل سطح پہ فرائض سرانجام دے رہاتھا۔

      آصف بلوچ نےبلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے تاریخ کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ اس دوران وہ سیاسی میدان کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کے شعبہ سے بھی وابستہ رہا ۔ ان کی کوشش تھی کہ تدرس وتدریس کے سلسلے کو ہمہ وقت جاری رکھا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کی اچھی تعلیم و تربیت ممکن ہوسکے ۔ انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ اچھی تعلیم و تربیت انسان کو راہوں کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اسی لیے ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر باقی نہ رہے۔ مجھے یاد جب میں کولواہ کے دورے پہ تھا تو ماسٹر آصف وہاں بھی ایک سرکاری سکول میں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ متاثرین اور علاقے کے دیگر بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وقت نکالتا تھا۔ کولواہ میں ان کی آمد بھی ریاستی بربریت کی وجہ سے ہوا،جب غیرفطری ریاست پاکستان کے عسکری اداروں نے ان کے آبائی علاقے سامی اوراس کے گردونواع میں بربریت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا تو وہ بعض دیگر دوستوں کے ہمراہ کولواہ میں سکونت اختیار کرنے پہ مجبور ہوا ۔ مہاجرت کی اس زندگی میں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ انتہائی سخت و کھٹن حالات سے گزررہے تھے اس کے باوجود بھی وہ کبھی بھی جماعتی کام سے لا علم نہیں رہا بلکہ ہمہ وقت بلوچ متاثرین کی دلجوئی اور ان کی سیاسی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ ان کی تحریک سے نظریاتی وابستگی تھی کہ وہ ہر لمحہ عملی طور پر کام میں مصروف رہا کرتا تھا۔ ان کی انتھک محنت اور سیاسی پختگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیچ ریجن کے دوستوں نے انہیں اپریل 2016میں ریجنل جنرل سیکرٹری منتخب کیا۔  ریجنل جنرل سیکرٹری منتخب ہونے کے بعد وہ اور زیادہ متحرک ہوا یا شاید ان دنوں میں نے انہیں زیادہ قریب سے دیکھا کیوں کہ انہی دنوں میں بھی کولواہ میں زیادہ وقت گزارنے لگا جہاں ہمارے دس کے قریب تربیتی ورکشاپس بھی منعقد ہوئے جن کی معاونت کاری میں آصف بلوچ کا کلیدی کردار رہا۔

        آصف بلوچ اور اس کے ساتھ رحم دل بلوچ عرفِ ’’نیتا‘‘ جو کہ ریجنل نائب صدر تھے ، ان دونوں کی ذہنی ہم آہنگی نے اس پورے علاقے کو سیاسی مرکز بنادیا ۔  سیاسی مرکز کی بات میں اس لیے کررہا ہوں کیوں کہ انہی کے عملی کام کی وجہ سے بعض مرکزی رہنما اس علاقے میں آزادانہ طور پراپنے پروگرام منعقد کرتے تھے جن میں قوم کے یہ دونوں عاشق ہراول میںہوا کرتے تھے۔

       جولائی 2016ء مجھے گورکوپ کا دورہ کرنا تھا اس دورے کے لیے میں آصف بلوچ اور رحم دل بلوچ سے بھی ساتھ جانے کو کہا تو انہوں نے توقف کے بغیر ہاں کہہ دیا۔ لگ بھگ ایک ماہ تک ہم گورکوپ میں تنظیمی عمل کو آگے بڑھاتے رہیں اس دوران ماسٹر آصف نے اپنے علم و عمل سے ایک ایسے علاقے کو جس میں کسی حد تک جمہود طاری ہوچکا تھا دوبارہ متحرک کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اور بہت جلد ہم اس نتیجے پہ پہنچے کہ اب تنظیم امور سنبھالنے کے لیے زونل باڈی کا قیام عمل میں لایا جائے کیوں کہ اس دوران کارکنان پھرسے متحرک ہوگئے تھے اس کے علاوہ بعض نئے دوستوں نے بھی پارٹی کے پروگرام سے متفق ہوکر شمولیت اختیار کی تھی جن کی وجہ سے کارکنان کی ایک اچھی خاصی تعداد سامنے آ گئی ۔ یہ ان دوستوں کی کاوشوں کی وجہ سے ممکن ہوا جہاں انہوں نے ایک ایسے علاقے کو ایک مختصر عرصے میں دوبارہ متحرک کیا جو بظاہر ناقابل یقین دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن جب علم اورعمل اتحاد قائم کرلیں تو لفظ ناممکن میں ’’نا‘‘ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ آصف جان نے اپنے علم اور عمل سے بنجر زمین کو لالازار میں تبدیل کردیا تھا اور یوں علاقے میں سیاسی سرگرمیوں کا سلسلہ ایک بار پھر زور و شور سے شروع ہوگیا۔

        ستمبر2016ء میں آصف بلوچ نے فیصلہ کیا کہ اب مسلح جدوجہد کی جانب پیش رفت کرنی چاہیے لہذا بلوچ نیشنل موومنٹ سے مستعفی ہوکر انہوں بلوچ ریپبلکن آرمی جوائن کرلی ۔پرامن سیاسی عمل کی طرح مسلح میدان میں بھی آصف ایک رہنما ثابت ہوا اور بہت جلد وہ کمانڈر تعینات ہوا۔  انہوں نے عسکری کاروائیوں کی بدولت قابض فورسز کا جینا دوبھر کردیاتھا ۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کبھی کولواہ میں دشمن پہ گھات لگا کے حملہ کرتا ، کبھی شاپک اور سامی میں قابض کے ٹڈی دل فوج کو آگھیرتا، کبھی بالگتر تو کبھی گورکوپ و ہیرونک میں دشمن پہ قہر بن کے ٹوٹ پڑتا۔ اپنے تابڑ توڑ اور کامیاب حملوں کی وجہ سے وہ دشمن کے ہٹ لسٹ پہ تھا لیکن نورا مینگل کی طرح وہ دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتا تھا ، صبح کا ناشتہ بالگتر میں ، دوپہر کے وقت کولواہ میں تو شام کی سیاہی ڈھلنے سے قبل وہ گورکوپ ، شاپک ، سامی یا ہیرونک میں دشمن کے قدم اکھاڑ رہا ہوتا۔ اس کی کامیاب فوجی حکمت عملی کی وجہ سے 2018میں وہ اپنی تنظیم کے مرکزی کونسل میں شامل ہوا ۔ یہ اس کی فہم و فراست تھی، دواندیشی اور قابلیت تھی کہ ایک مختصر مدت میں انہوں نے تنظیم میں اہم مقام حاصل کیا۔

         2016ء کے بعد آصف بلوچ سے میری ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن دوستوں کے بقول آصف کی دوریشی قابل دید تھی۔ وہ ہنس مکھ تو پہلے ہی سے تھا لیکن اب اس کی مسکراہٹ میں ولیوں والی تھی جہاں اس کی مسکراہٹ دیکھ کر تھکے ماندے دوست خودکو ہشابشاش محسوس کرتے تھے۔ آصف ہمارے تاریخ کا ایک انمول کردار ۔۔۔ہاں وہ انمول تھا۔۔۔وہ سب سے منفرد۔۔۔ پر قدرت نے موقع ہی نہیں دیا کہ آصف میناروں پہ آزادی کا علم بلند ہوتا دیکھے اور یوں ہمارا یہ’’ مست قلندر‘‘ ہوشاپ کے مقام پر 8مارچ 2022کودشمن کے ایک ڈرون حملے میں اپنے دیگر ساتھیوں سمیت اپنے لہو سے خاکِ وطن کو سیراب کرکے آکاش کی جانب رخت سفر باندھ لیتا ہے۔ آج وہ جسمانی طور پر ہمارے ساتھ نہیں لیکن اس کا نظریہ و فکر، عمل و کردار منزل پانے کے لیے کامیاب اصول ہیں ۔

       محکومیت سے گلوخلاصی انہی ہستیوں کے عمل سے ممکن بن جاتا ہے۔ وہ رہے یا نہ رہیں لیکن ان کا کردار ، عمل اور نظریہ و فکر کی پختگی ہمہ وقت رہنمائی کرتے ہیں جس سے مستفید ہونے کے لیے مست و ملنگ دیوانہ وار ان کی شبیہہ میں خود کو ڈالنے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں تاکہ وہ فیضیاب ہوسکیں، تاکہ وہ بھی مریدِ غوث کہلانے اور عشقِ وطن میں ہراول کا کردار ادا کرنے میں ہمہ وقت مگن رہیں۔ یہ مست و ملنگ نویدِ صبح کے لیے خود کو کچھ اس انداز سے وقف کرتے ہیں کہ پھر نہ جان کی پرواہ ، صبح کو نوالہ ملے تو دوپہر کے غم سےبے خبر کارِ اولیاء میں دنیا سے بے خبر فقط عمل میں مصروف ۔ یہی ان کی شادمانی کا راز ہے۔۔۔ یہی زاد راہ۔

Leave a Reply