وفاق کا رویہ بلوچستان کیساتھ درست نہیں، بجٹ میں 80 فیصد رقم کا فوری اجرا یقینی بنایا جائے، اراکین صوبائی اسمبلی

, ,

کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے کہا ہے کہ وفاق کا رویہ بلوچستان کے ساتھ درست نہیں ہے بلوچستان کو ہر حوالے سے نظر انداز کیا گیا ہے موجودہ وزیر اعظم نے صوبے کے ساتھ بڑے بڑے وعدے، دعوے اور اعلانات کئے مگر ان میں سے کسی ایک پر عملدرآمد نہیں ہوا،مالی سال 2023-24کے بجٹ میں 80فیصد رقم کے فوری اجراءکو یقینی بنایا جائے تاکہ دو ماہ جو باقی رہ گئے ہیں ارکان اسمبلی اس دورانیے میں اس رقم کو زیادہ سے زیادہ عوامی اور فلاحی منصوبوں کیلئے بروئے کار لایا جاسکے ،2023-24کے بجٹ میں اراکین اسمبلی کی تجاویز کو اہمیت دیکر بجٹ کی تشکیل میں عوام اور صوبے کے مفاد کو سامنے رکھا جائے ۔یہ بات اراکین اسمبلی نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں قبل از میزاینہ بحث کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔جمعرات کو بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے پری بجٹ اجلاس میں میزانیہ بابت مالی سال 2023-24پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں تمام حلقوں میں برابری کے بنیاد پر ترقیاتی عمل کو یقینی بنایا جائے رواں مالی سال کی پی ایس ڈی پی اور پی ایس ڈی پی پلس کی رقم ریلیز نہیں ہوئی مذکورہ رقم جاری نہ ہونے سے پی ایس ڈی پی 2023-24کوئی کام کی نہیں ہوگی لہذا پی ایس پی ڈی پی پلس کے تحت مختص رقم جاری کی جائے انہوں نے کہاکہ 2023-24کے بجٹ میں 80فیصد رقم کے فوری اجراءکو یقینی بنایا جائے تاکہ دو ماہ جو باقی رہ گئے ہیں ارکان اسمبلی اس دورانیے میں اس رقم کو زیادہ سے زیادہ عوامی اور فلاحی منصوبوں کیلئے بروئے کار لایا جاسکے انہوں نے کہاکہ بجٹ میں لائیو اسٹاک، فشیریز آبنوشی سمیت دیگرپیداواری شعبوں پرتوجہ دی جائے ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کیلئے ٹائم فریم مقرر کیا جائے اور منصوبوں کیلئے باقاعدہ فنڈز جاری کئے جائیں بارڈر میجمنٹ کو درست کرکے سرحدی تجارت کو قانونی شکل دےکر بھتہ خوری کو ختم کیا جائے انہوں نے کہاکہ 2023-24کا بجٹ میں دیر پا ہونا چاہئے جمعیت کے رکن اسمبلی زابد علی ریکی نے اپنی تجاویز دیتے ہوئے کہاکہ بجٹ میں صوبے کے پسماندہ علاقوں کی ڈویلپمنٹ کو یقینی بنایا جائے انہوں نے کہاکہ اس وقت میرا حلقہ واشک صوبے کا پسماندہ ترین علاقہ ہے اسکی پسماندگی کے خاتمے کیلئے دس ارب روپے بجٹ میں مختص کئے جائیں انہوں نے وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ وفاق میں جو بھی وزیر اعظم آتا ہے صوبے کو نظر انداز کرتا ہے وفاق کا رویہ بلوچستان کے ساتھ درست نہیں ہے بلوچستان کو ہر حوالے سے نظر انداز کیا گیا ہے موجودہ وزیر اعظم نے صوبے کے ساتھ بڑے بڑے وعدے، دعوے اور اعلانات کئے مگر ان میں سے کسی ایک پر عملدرآمد نہیں ہوا وزیر اعظم سیلاب سے ہونیوالے نقصانات کے حوالے سے وزیر اعظم نے دس ارب روپے کا اعلان کیا تھا مگر صوبے کو دس روپے بھی نہیں ملے اس رویے پر وزیر اعظم کو اس عہدے سے استعفیٰ دینے چاہئے انہوں نے کہاکہ ہم وزیر اعظم سے بھیک نہیں مانگ رہے بلکہ صوبے کا حق مانگ رہے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ خزانہ خالی ہونے کا رونا رو رہے ہیں وفاق کے ذمہ صوبے کے جو واجبات ہیں کم سے کم وہی پیسے تو ہمیں دیئے جائیں انہوں نے کہاکہ 2023-24کے بجٹ میں اراکین اسمبلی کی تجاویز کو اہمیت دیکر بجٹ کی تشکیل میں عوام اور صوبے کے مفاد کو سامنے رکھا جائے انہوں نے سابق صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی نور محمد دمڑ کی جانب سے اقتصادی کونسل کے اجلاس میں شرکت پر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ جب وزیراعلیٰ بلوچستان نے وفاق کے رویے کے خلاف اقتصادی کونسل کے اجلاس سے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا تو سابق صوبائی وزیر کو اس اجلاس میں شریک نہیں ہونا چاہئے تھا یا کم از کم وزیر اعلیٰ سے پوچھ لیتے کہ وہ اجلاس میں شریک ہوں یا نہ ہو۔ بی این پی کے رکن اسمبلی میر اکبر مینگل نے خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی کے طلباءکو درپیش اسکالرشپ کے مسئلے پر ایوان توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے بھی ایوان کی توجہ اس جانب مبذول کراچکے ہیں کہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے طلباءکو اسکالرشپس میں مسائل کا سامنا ہے ان کا یہ مسئلہ فوری طور پر حل کیا جائے انہوں صوبائی وزیر خزانہ انجینئر زمرک اچکزئی سے بھی اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کی درخواست کی بعد ازاں پینل آف چیئرمین کے رکن قادر علی نائل نے بلوچستان اسمبلی اجلاس آج سہ پہر تین بجے تک کیلئے ملتوی کردیا۔

Leave a Reply