میرا 21 سالہ بیٹا الطاف بے گناہ تھا ، قتل کرکے سرمچار ظاہر کیا گیا-ملاجاڑا

, ,

تربت: شہید الطاف کے والد اور خالہ نے تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا 21 سالہ بیٹا بے گناہ تھا اور وہ ھوشاپ میں گھر کے لیے راشن لینے گئے تھے کہ انھیں فوج کی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں نے اغواء کیا اور پھر انھیں قتل کرکے سرمچار ظاہر کیا گیا۔

انھوں نے کہا ہمارا بچہ گاؤں میں سرعام گھومنے والا تھا۔ وہ جب گرفتار تھا تب بھی انھوں نے فون پر بتایا تھا کہ وہ آ رہا ہے ، اسے امید تھی کہ اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ حکومتی ادارے کو چاہیے تھا کہ اسے عدالت میں پیش کرتے۔

اس موقع پر تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست بھی موجود تھے انھوں نے کہا کہ بلوچستان پر آشوب دور سے گزر رہا ہے ، فورسز کو چاہیے کہ جن کے ساتھ ان کی لڑائی ہے وہ ان کے ساتھ مد مقابل ہوں عام بلوچ کو اغوا کرکے قتل کے بعد من گھڑت کہانی نہ بنائی جائے۔

ملا جاڑا اپنے بیٹے کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ان کی تنظیم سے وابستگی ظاہر کی گئی تنظیم تو ایک طاقت ہے وہ فورس کے اندر گھس کر وار کرتے ہیں ، وہ فوج پر حملہ آور ہوتے ہیں ہم تو ایسا نہیں کرسکتے۔

شہید الطاف کی خالہ نے بتایا کہ انھیں علاقے میں شہید کی لاش لانے کے لیے کسی نے اپنی گاڑی نہیں دی اور وہ پیدل تربت کی طرف نکل پڑے۔

گلزار دوست نے پریس کانفرنس میں آغاز میں بتایا الطاف ولد جاڑا تجابان سے بالگتر جا رہے تھے کہ انھیں نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور قتل کے بعد ان کی لاش بالگتر میں پھینکی گئی اور پھر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ الطاف سرمچار تھے جب کہ پورا علاقہ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ ایک غریب اور عام مزدور لڑکا تھا جو پہلے گیراج میں کام کرتا تھا۔ انھوں نے گاڑیوں کلینرنگ بھی کی۔ان کی فیملی کا کہنا ہے کہ ہمارا بیٹا بے گناہ تھا جنھیں قتل کرکے سرمچار ظاہر کیا گیا جو کہ حقیقت کے برعکس ہے۔

«حکومت کے جیل عدالتیں اور قانون انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ہیں-ملا جاڑا »

ملا جاڑا نے تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا ہم پر ظلم کیا گیا میری انسانی حقوق کے اداروں سے درخواست ہے کہ ہمیں انصاف دلانے کے لیے کردار ادا کریں کہ اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو اسے عدالت میں پیش کرکے سزا دی جاتی ہے۔یہ بتایا جاتا ہے کہ اسے کس جرم میں سزا دی گئی ہے۔حکومت کے جیل ، عدالتیں ، قانون ، سزائیں ، پھانسیاں یہ سب انصاف کو یقینی بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔دو مہینے پہلے ڈیتھ اسکواڈ نے بلوچی کپڑوں میں آکر ہمارے گھر میں بھی اس بچے پر حملہ کیا تھا۔گھر سے موٹر سائیکلیں ڈکیتی کرکے لے کر گئے اور پھر صبح سویرے ہیلی کاپٹرز کی آوازیں آئیں اور گاڑیوں میں فورسز نے آکر چھاپہ مارا ، اس وقت یہ بچہ جبری گمشدگی سے بچ گیا۔

’’ اس دن بچہ ھوشاپ میں روزگار کے سلسلے میں جا رہا تھا، بالگتر سے شہر سے دور ہے۔ہم اپنے راشن ، ھوشاپ ، پنجگور اور تربت سے خریدتے ہیں۔تجابان ہمارا علاقہ ہے جہاں ہم اپنے ضروریات کے آتے جاتے ہیں ۔تجابان سے بچے (الطاف) کو اغواء کیا گیا اور جمعے کو ان کی لاش پھینکی گئی۔اور انھیں مسلح ظاہر کرکے ان کی تصویر انٹرنیٹ پر وائرل کی گئی،اور اسے پنجگور واقعے میں ملوث کیا گیا کہ یہ بچہ اس حملے میں شامل تھا۔ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم بلوچستان کی سرزمین پر رہتے ہیں جو حملے کا ہدف ہے۔ ہمارا علاقہ پسماندہ علاقہ ہے یہاں لاکھوں غریب رہتے ہیں۔اگر ڈیتھ اسکواڈ چاہئے تو ہزارہاں لوگوں کو قتل کرئے اور انھیں مسلح ظاہر کرکے بتایا جائے کہ یہ کسی مزاحمتی عمل کا حصہ تھے۔‘‘

انھوں نے کہا حکومت کمزور نہیں ، ذمہ داران کو گرفتار کرکے اپنی عدالتوں میں پیش کرئے۔تربت کے ڈپٹی کمشنر سے میری درخواست ہے۔ ظہور بلیدھی اور عبدالقدوس بزنجو سے درخواست ہے کہ آپ لوگ علاقے کے ذمہ دار اور صاحب اقتدار افراد ہو۔آپ غریبوں کے لیے انصاف کریں۔بالگتر کو ظہور اور عبدالقدوس بزنجو جانتے ہیں کہ ان لوگوں کا کام کیا ہے، ان کا روزگار کیا ہے ، ان کی دولت کہاں سے آئی ہے۔اگر کوئی اپنی بکریاں پہاڑوں میں چرانے لے جاتا ہے تو حکومت کے یہ چور آتے ہیں اور ان پر تشدد کرتے ہیں۔ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ اپنے چوروں کو گرفتار کرئے، حکومت جانتی ہے کہ چور کون ہیں۔وہ جانتی ہے کہ وہ کس کو بھیج رہی اور کون یہ کام کر رہا ہے؟۔ہماری ان سے درخواست ہے جو انسانی حقوق کو سمجھتے ہیں اور انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں کہ اس مسئلے پر ہماری آواز بنیں۔

«بالگتر کے لوگوں سے پوچھا جائے کہ اس نے کیا کیا تھا ، اس کا جرم بتایا جائے-شہید الطاف کی خالہ»

اس موقع پر شہید الطاف کی خالہ نے کہا شہید الطاف 21 سالہ نوجوان تھے اور ہمارے چار بلوچی گھرانوں (جن میں کافی لوگ رہتے ہیں) کے راشن لانے کا ذمہ دار تھے۔ وہ یہاں سے چینی خریدنے ہوشاپ کے لیے نکلے تھے کہ انھیں راستے میں تجابان سے اغواء کیا گیا۔فون منقطع تھے ہم انتظار میں تھے رات کو یا اگلے دن آئیں گے۔چوتھے دن ان کی لاش ہمارے گھر کی مغرب کی سمت ایک دن کے مسافت پر دور پھینکی گئی۔چرواہوں نے ان کی لاش دیکھی، جو فریاد کرتے ہوئے آئے۔ ہم سمجھے کہ ہمارے چرواہوں پر تشدد کیا گیا ہے۔پتا چلا کہ شہید الطاف کی لاش پھینکی گئی ہے۔

’’ہم نے گاڑیاں مانگیں کہ اپنی شہید کی میت کو لے کر آئیں کسی نے ہمیں اپنی گاڑیاں نہیں دیں کہ اپنی شہید کی لاشیں لاسکیں۔تین دن تک ہم روتے رہے۔
ہم پرسوں بالگتر سے نکلے تھے ، گرتے پڑتے ، پیدل اور موٹر سائیکلوں سے ھوشاپ پہنچے اور وہاں سے راہ چلتی گاڑیوں میں سوار ہوکر یہاں تربت پہنچے ہیں۔یہاں اپنی آواز پہنچائی ہے، عدالت تک اپنی آواز پہنچائی ہے کہ ہمارے تین موٹر سائیکل چوری کیے گئے اور ہمارے بیٹے کو قتل کیا گیا ہے۔ہمارے بیٹے کو قتل کیا گیا جو ہمارے علاقے کے ایک ذمہ دار لڑکے تھے۔بالگتر کے لوگوں سے پوچھا جائے کہ اس نے کیا کیا تھا ، اس کا جرم بتایا جائے۔

شہید الطاف کی خالہ نے کہا کہ قاتل فورسز کی حمایت یافتہ ہیں جو کے مسلح ہیں۔ عام آدمی ایک پیاز کاٹنے والی چاقو لے کر تربت نہیں آسکتا۔تو مسلح افراد کیسے موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر گھروں کے عقب میں گھوم سکتے ہیں؟۔موٹر سائیکلوں پر آتے ہیں کبھی گاڑیوں پر آتے ہیں۔کبھی دو گاڑیاں آتی ہیں، کبھی تین۔ پھر فوج کے جہاز آتے ہیں۔ اگر ان کو سرکار کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو ان کے ساتھ فوج کے جہاز نہ ہوتے۔

ملا جاڑا نے شہید الطاف کے قتل میں ملوث ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں کے بارے میں بتایا رات کو پیدل آتے ہیں اور صبح ان کو لینے گاڑیاں آجاتی ہیں۔ویسے عام آدمی کے ہاتھ میں درانتی جیسی چھری نہیں ہے اور یہ مسلح گھومتے ہیں۔

ذریعہ: پریس کانفرنس | تصویر: اسکرین گریب

Leave a Reply