فالج کے علاج کے لیے نئی پروٹین تھراپی کے حوصلہ افزا نتائج برآمد

, ,

اوسلو: ہم جانتے ہیں کہ فالج بہت تباہ کن ثابت ہوتا ہے کیونکہ خون کا لوتھڑا دماغی رگ میں پھنسنے سے دماغ کے اہم حصے آکسیجن اور خون کی کمی سے تیزی سے ناقابلِ تلافی انداز میں تباہ ہونے لگتے ہیں۔ اس ضمن میں اب بالکل نئی پروٹین تھراپی وضع کی گئی ہے جو فالج کے نقصان کو بہت حد تک کم کرسکتی ہے۔

جامعہ اوسلو کے سائنسدانوں کے مطابق فالج کے بعد مخصوص پروٹین داخل کرکے فالج کے نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے۔ چوہوں کو فالج میں مبتلا کرنے کے چند گھنٹوں بعد ابتدائی آزمائش سے بہت امید افزا نتائج ملے ہیں جو اس مزید بگاڑ کو روک سکتے ہیں۔ تاہم انسانی آزمائش کی منزل ابھی بہت دور ہے۔

’فالج سے ہونے والی منفی دماغی تبدیلیاں پوری عمر کا روگ بن جاتی ہیں، فالج کا ہر منٹ دماغ کے لیے تباہ کن ہوتا جاتا ہے اور حملے کے بعد دماغی حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہمیشہ سے ہی محسوس کی جاتی رہی تھی۔ اس تھراپی میں ہم نے خون کا ایک پروٹین، ’فیکٹر سیون ایکٹی ویٹنگ پروٹیئز‘ (ایف ایس اے پی) پر توجہ کی ہے،‘ تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر سندیپ کانسے نے بتایا۔

فالج کے بعد خون میں ایف اے ایس پی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور فالج کے مریضوں میں بھی اس کی زائد مقدار دیکھی گئی ہے۔ سائنسداں جاننا چاہتے تھے کہ اگر چوہوں میں ایف اے ایس پی کی پیداوار جینیاتی یا کسی اور طریقے سے مکمل روک دی جائے تو فالج کی صورت میں ان پر کیسے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں ماہرین کا اندازہ غلط نکلا اور چوہوں کے دماغ کو زیادہ نقصان پہنچا۔

اگلے مرحلے میں چوہوں کو فالج کا مریض بنا کر ایف ایس اے پی داخل کیا گیا تو اس کے اچھے اثرات دیکھنے میں آئے۔ اسی بنا پر پروٹین تھراپی وضع کی گئی ہے۔

فی الحال شدید فالج کے بعد کا ایک علاج ٹشو پلازمینوجن ایکٹی ویٹر یا ٹی پی اے دنیا بھر میں رائج ہے جو فوری طور پر دماغ کی نسیجوں میں پھنسے لوتھڑے کو گھلا کر رگوں کو کشادہ کردیتی ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ جتنی جلدی اس کا ٹیکہ لگایا جائے تو فائدہ ہوتا ہے لیکن اب بھی صرف ایک تہائی افراد کو ہی اس سے فائدہ ہوتا ہے۔

جن چوہوں کو ٹی پی اے کے ساتھ ایف ایس اے پی دیا گیا ان میں صرف ٹی پی اے تھراپی والے چوہوں کے مقابلے میں بہت بہتری دیکھی گئی۔ توقع ہے کہ اسے ٹی پی اے کے ساتھ ملاکر نئی پروٹین تھراپی سے فالج کے بعد دماغ کو مزید نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔ تاہم انسانوں سے قبل مزید تحقیق اور آزمائشوں کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply