بلاگرز کی اقسام اور قارئین سے کچھ باتیں!

, ,

کسی میگزین یا اخبار کا مدیر ہو یا پھر کسی ڈیجیٹل ویب سائٹ کے ’’بلاگ‘‘ سیکشن کی بطور انچارج ذمے داری، بظاہر بہت سہل لگتا ہے لیکن اس دشت کی سیاحی میں نہ صرف آبلہ پائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بسا اوقات ’’اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی‘‘ کا سا معاملہ ہوتا ہے۔

مدیر یا بلاگ انچارج کا براہِ راست رابطہ و تعلق اس میڈیم کے صارفین اور مصنفین سے ہوتا ہے۔ ہر کسی کے مزاج پر پورا اترنا اور پسند و ناپسند کا ایک ساتھ خیال رکھنا ممکن نہیں۔ ظاہر ہے جتنے اذہان اتنے مزاج۔ اب اگر ایک وقت میں کسی کی نظر میں اچھے ہوں تو اسی وقت کئی اور لوگوں کی نظر میں برے بھی بن جاتے ہیں۔ کسی ایک سیاسی جماعت کے حق یا مخالفت میں بلاگ شایع کردیں تو مخالف جماعت کے چاہنے والے یا اسی جماعت کے حمایتیوں کی طرف سے لعن طعن بھی سننے کو ملتی ہے۔ ہر چند کہ بے چارے مدیر کے اپنے نظریات جو بھی ہوں، کام اور فرائض کے معاملے میں وہ ’’نیوٹرل‘‘ ہوتا ہے۔

معاملہ اس وقت اور بگڑ جاتا ہے جب کسی بلاگر کی کوئی تحریر مسترد کردی جائے یا نظرثانی اور دوبارہ لکھنے کی ہدایت کے ساتھ واپس کردی جائے۔ کچھ بلاگرز تو اس معاملے کو اتنا دل پر لے جاتے ہیں کہ ذاتی حملوں پر اتر آتے ہیں اور باقاعدہ دوسرے پلیٹ فارمز پر اس مدیر کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔ بعض مصنفین وہی مسترد شدہ تحریر کسی اور عام ویب سائٹ پر شایع کروا کر فخریہ فیس بک اور واٹس ایپ گروپس میں اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ دیکھو ہماری یہ تحریر تو ایکسپریس بلاگز نے مسترد کردی تھی جبکہ فلاں ویب سائٹ نے من و عن شایع کردی ہے۔ ایکسپریس والے جانبداری سے کام لیتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

آج صحافت کے اس سفر میں بیس سال اور ’’ایکسپریس بلاگز‘‘ میں تین سال مکمل ہونے پر سوچا کیوں نہ بلاگرز اور قارئین کے ساتھ اس بلاگ کے ذریعے ہم کلام ہوا جائے۔ یوں تو اس بلاگ کا بنیادی آئیڈیا ایکسپریس بلاگز کے سابق انچارج اور ہمارے قابل احترام ساتھی سینئر سائنس جرنلسٹ علیم احمد کا ہے۔ لیکن وہ چونکہ اپنی گوناگوں مصروفیات کی بنا پر یہ بلاگ نہیں لکھ پائے، اس لیے ان کی اجازت سے یہ تحریر ہم مکمل کررہے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ بتادیں کہ وہ بنیادی خیال کیا ہے جس پر یہ بلاگ لکھا جارہا ہے۔ تو جناب یہ بلاگ ہے ’’بلاگرز کی اقسام‘‘ سے متعلق۔ کچھ عجیب لگا ناں؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ’’بلاگنگ‘‘ کی قسمیں تو ہوسکتی ہیں لیکن یہ ’’بلاگرز کی اقسام…‘‘؟ کچھ ایسا ہی ہے اور بلاگرز کی بھی ایک دو نہیں ہمہ اقسام ہیں جن کا بطورِ بلاگ انچارج ہمیں سامنا رہتا ہے۔

آئیے بتاتے ہیں آپ کو کہ بلاگرز کی یہ اقسام کون سی ہیں اور ان کی خاصیت کیا ہے۔

خودپسند بلاگر

بلاگرز کی اقسام میں ہم سب سے پہلے ’’خودپسند بلاگرز‘‘ کو شامل کریں گے۔ یہ بلاگرز کی وہ قسم ہوتی ہے جن کی تحریر میں صرف ’’میں‘‘ جھلکتی ہے۔ ہمارے سابق وزیراعظم کی تقاریر پر اکثر میمز بنتی رہی ہیں، جن میں ان کا تکیہ کلام بھی صرف ’’میں‘‘ ہوتا ہے۔ خودپسند بلاگرز کی قسم بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ ان کی تمام تر تحریر بھی صرف ’’میں‘‘ یعنی ان کی اپنی ذات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ موضوع چاہے کچھ بھی ہو، یہ حضرات خود کو اس موضوع میں سمو لیتے ہیں، اور پوری تحریر میں گاہے بگاہے اپنی ذات کا تذکرہ کرنے سے نہیں چوکتے۔

ظاہر ہے ایسی تحاریر جن میں خودنمائی اور خودپسندی ہو، وہ معیاری نہیں کہلائی جاسکتی۔ مجبوراً ہمیں وہ مسترد کرنی پڑتی ہے۔

بمبار بلاگر

ہمارے ساتھی علیم احمد نے بمبار بلاگرز کا نام ان کو دیا ہے جنھوں نے باقاعدہ درجنوں ای میلنگ ایڈریس کی مکمل بک بنا رکھی ہے۔ کوئی بھی تحریر لکھی اور ان تمام ای میل ایڈریسز پر بھیجنا شروع کردی جو ان کے پاس محفوظ ہیں۔ مین ای میل ایڈریس کی جگہ کم پڑی تو cc اور پھر bc کے آپشن میں بھی وہ تمام ای میل ایڈریس ڈال کر سینڈ کا بٹن دبا دیا۔ جی ہاں! جیسے بمباری کی جاتی ہے تو چیزیں چیتھڑوں میں ہر جگہ پھیل جاتی ہیں، ویسے ہی یہ بلاگرز اپنی تحریر کو پورے پاکستان کے جو جو ای میل ایڈریس ان کے پاس موجود ہیں، وہاں اپنی ’’تازہ تحریر‘‘ پھیلا دیتے ہیں۔

صحافتی اخلاقیات میں اگر آپ ایک تحریر کسی ایک ادارے کو بھیجتے ہیں تو وہاں سے جواب ملنے تک یا مناسب انتظار کے بعد تک وہ تحریر کہیں اور روانہ نہ کیجئے۔ ایسی ای میلز میں چونکہ درجنوں ای میل ایڈریسز نظر آرہے ہوتے ہیں اس لیے وہ تحاریر بھی مسترد کرنی پڑتی ہیں کہ اگر ہماری ویب سائٹ سے پہلے کہیں اور شایع ہوجائیں تو مسئلہ نہ ہو۔

ہوشیار بلاگر

بمبار بلاگرز کی ذیلی قسم ہوشیار بلاگرز کی ہے۔ یہ بلاگرز بھی بمبار بلاگر کی طرح درجنوں جگہ اپنی تحریر روانہ کرتے ہیں، لیکن ہوشیاری یہ کرتے ہیں کہ ہر ای میل الگ الگ بھیجتے ہیں، اس طرح دیگر ای میل ایڈریس اور cc یا bc کا آپشن ای میل موصول کرنے والے کو نظر نہیں آتا۔ تحریر اگر اچھی ہو تو ایڈیٹر اپنی ذمے داری ادا کرتے ہوئے موصولی کی جوابی ای میل کرتا ہے اور اخلاقاً پوچھتا بھی ہے کہ یہ تحریر کہیں اور تو روانہ نہیں کی۔ جواباً یہ ہوشیار بلاگر انکار کردیتے ہیں۔ اور جب ایڈیٹر بلاگ سلیکٹ کرکے ادارت بھی کرلیتا ہے تو بعض اوقات تحریر شایع ہونے سے پہلے یا بعد میں علم ہوتا ہے کہ وہ بلاگ تو پہلے ہی کسی اور ویب سائٹ پر اسی بلاگر کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔

کاپی پیسٹ بلاگر

بلاگر کی اس قسم کی خاصیت تو آپ کو نام سے ہی پتا چل گئی ہوگی۔ جی ہاں! یہ کاپی پیسٹ کرنے والے بلاگر ہوتے ہیں۔ مختلف تحاریر سے مختلف جملے اور بعض اوقات مکمل پیراگراف کاپی کیے اور ایک نئی تحریر بنا کر روانہ کردی۔ ایسی تحاریر میں سرقہ نویسی پکڑنا ایڈیٹر کےلیے مشکل ہوتا ہے، لیکن یہی تو ایڈیٹر کی ذمے داری ہے۔ سو ایسی تحاریر بھی یکسر مسترد کردی جاتی ہیں۔

سرقہ باز بلاگر

سرقہ نویسی قانوناً اور اخلاقی طور پر جرم ہے۔ لیکن سرقہ نویس کہاں باز آتے ہیں۔ سرقہ باز بلاگرز کی یہ قسم کسی اور کی شایع شدہ تحریر کو حرف بحرف ’’چوری‘‘ کرکے یا ابتدائی اور اختتامی پیراگراف حذف کرکے اپنے نام سے بھیج دیتے ہیں۔ ایسے افراد کی چوری فوری پکڑی جاتی ہے۔ اور چونکہ سرقہ نویسی کے معاملے میں ایکسپریس کی پالیسی بہت سخت ہے، اس لیے ایسے بلاگرز کو بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے۔

قسمیہ حلفیہ بلاگر

چوری اور اوپر سے سینہ زوری تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ قسمیہ حلفیہ قسم کے بلاگرز بھی ایسے ہی ہوتے ہیں کہ چوری بھی کرتے ہیں اور اپنی ای میل میں قسمیں بھی اٹھانے سے باز نہیں آتے کہ وہ تحریر ان کی ہی لکھی ہوئی ہے۔ ان کا موقف ہوتا ہے کہ انھوں نے تحریر خود ہی لکھی ہے، شاید دوسرے مصنف کے ذہن میں بھی وہی خیال آگیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ ارے بھئی خیال کا یکساں ہونا الگ بات ہے، ایسا تھوڑی ہوسکتا ہے کہ دو الگ الگ مصنف حرف بحرف ایک جیسی ہی تحریر لکھ ڈالیں۔

ڈھیٹ بلاگر

اوپر جو سرقہ نویسوں کی تین قسمیں بیان کی ہیں، ڈھیٹ بلاگرز ان ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک تو چوری کرتے ہیں اور پھر سینہ زوری پر بھی اتر آتے ہیں۔ پہلے قسمیہ حلفیہ کہتے ہیں کہ تحریر چوری نہیں کی۔ جب تمام ثبوت پیش کردیے جائیں تو ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہاں کچھ معلومات مستعار لی ہیں۔ جب کہ تحریر میں کوئی حوالہ بھی شامل نہیں ہوتا۔ ڈھٹائی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اپنی غلطی اور چوری پکڑے جانے پر معذرت تک نہیں کرتے اور مزید تحاریر شایع کرنے کا مطالبہ ہوتا ہے۔

ایسا صرف نئے لکھنے والے ہی نہیں کرتے بلکہ اچھے خاصے نامور بلاگر تک اس ’’جرم‘‘ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ایسے ہی ایک بلاگر کی چوری پکڑی گئی۔ انھوں نے جن دو تحریروں کو ملا کر بلاگ ’’بنایا‘‘ تھا، ان کے لنک کے ساتھ جواب روانہ کردیا گیا۔ چونکہ ایکسپریس بلاگز پر پرانے لکھنے والے تھے، اس لیے بلیک لسٹ کرنے کے بجائے وضاحت طلب کی۔ جواباً ان صاحب نے موقف اختیار کیا کہ تحریر کا ایک حصہ ان کا ہی لکھا ہوا ہے۔ (کیونکہ دوسری ویب سائٹ پر وہ حصہ ایک خبر میں تھا، اور ان کے مطابق وہ خبر ان ہی کی بنائی ہوئی تھی)۔ تحریر کا غالب حصہ دوسری ویب سائٹ پر کئی سال پہلے ایک خاتون کے نام سے شایع ہوچکا تھا۔ ان صاحب نے موقف اختیار کیا کہ ’’اتنا تو چلتا ہے‘‘۔ یعنی کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں، نہ ہی کوئی معذرت، نہ آئندہ ایسا ہونے کی یقین دہانی۔ بلکہ صاف ڈھٹائی کہ انھوں نے سرقہ نہیں کیا۔ معاملہ ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ تک پہنچا تو ان کی ہدایت پر ان پرانے بلاگر کو بھی بلیک لسٹ کرنا پڑا۔ نتیجتاً ان صاحب کی جانب سے سخت برہمی کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی آخری ای میل میں ان صاحب نے ہمیں برے القابات نوازنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ باقی آپ سمجھدار ہیں۔

بہروپیے بلاگر

بلاگرز کی اس قسم میں بلاگر اپنے اصل نام کے بجائے نئے نئے بہروپ یا نئے نام کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ زیادہ تر ایسا کرنے والے وہ بلاگر ہوتے ہیں جو ماضی میں کسی وجہ سے بلیک لسٹ ہوچکے ہوں۔ غلط فہمی میں بعض اوقات ایسے بہروپیے بلاگرز کی کچھ تحاریر شایع بھی ہوجاتی ہیں۔ لیکن علم ہونے کے بعد انھیں دوبارہ وارننگ دینی پڑتی ہے۔

اختصاریہ بلاگر

اختصاریہ یا مختصر نویس بلاگرز کی تحریریں اتنی مختصر ہوتی ہیں کہ جیسے فیس بک یا واٹس ایپ کا اسٹیٹس اپ ڈیٹ لکھ دیا ہو۔ بمشکل چند سطور یا ایک دو پیراگراف پر مبنی ان تحریروں میں تشنگی صاف جھلکتی ہے۔ اس لیے انھیں بھی مسترد کرنا پڑتا ہے۔ ایک کوالٹی بلاگ آٹھ سو سے بارہ سو الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ بہت زیادہ طویل بلاگ بھی معیاری نہیں ہوتا۔ موضوع کی اہمیت کے باعث دو ہزار سے پچیس سو الفاظ تک کا بلاگ بھی قابل قبول ہوتا ہے۔ لیکن ایسا مختصر بلاگ جو شروع ہونے سے پہلے ختم ہوجائے وہ شایع نہیں کیا جاسکتا۔

ہیش ٹیگیا بلاگر

اخبار کے کالم نگار ہیش ٹیگ کی سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، لیکن ویب سائٹ کے بلاگرز اس گُر سے خوب واقف ہیں۔ ہیش ٹیگیا بلاگرز وہ ہوتے ہیں جو اپنی تحریر میں جابجا اور بلاضرورت ہیش ٹیگز کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق ایسا کرنے سے ان کی تحریر وائرل ہوگی۔ لیکن درحقیقت ایسے تحریر مسخ ہوجاتی ہے۔ ہیش ٹیگ کا استعمال صرف تحریر پوسٹ کرتے ہوئے کرنا چاہیے۔ تحریر کے درمیان میں متن کے ساتھ ہیش ٹیگ کا استعمال مناسب نہیں۔

معاوضہ خوار بلاگر

یہ معاضہ خور نہیں بلکہ معاوضہ خوار بلاگر ہیں۔ ایسے بلاگر کا زور تحریر بھیجنے کے بجائے اس بات پر ہوتا ہے کہ انھیں تحریر کا معاوضہ کتنا ملے گا؟ زیادہ تر ایسے سوال کرنے والے بالکل نوآموز ہوتے ہیں اور ان کی مختصر ای میل سے ہی ان کے اناڑی پن کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اکثر ایسے بلاگر جب اپنی تحریر روانہ کرتے ہیں تو وہ ناقابل اشاعت ہی قرار پاتی ہے۔ کسی بھی نئے لکھنے والے کو معاوضے سے پہلے تحریر کی اشاعت اور بلاگرز کی دنیا میں اپنا نام بنانے کی فکر ہونی چاہیے۔ اگر آپ ایک اچھے بلاگر بن جاتے ہیں تو کئی ویب سائٹ خود آپ کی تحریر کا معاوضہ دیں گی۔ ایکسپریس بلاگ کے ذریعے بالکل نئے لکھنے والے بھی آج نامور بلاگر بن چکے ہیں۔

نظریاتی بلاگر

بلاگرز کی اس قسم میں وہ حضرات آتے ہیں جو اپنے نظریات پر سختی سے کاربند اور ان کے پرچار کےلیے تحریر میں کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ یوں تو بلاگر اپنی رائے کے اظہار کےلیے آزاد ہے اور ادارے کو نیوٹرل رہتے ہوئے ہر کسی کی آرا کو شامل اشاعت کرنا پڑتا ہے۔ لیکن نظریاتی قسم کے بلاگر اپنی معلومات میں چاہے کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں، صحافتی اصولوں کی پاسداری نہ کرتے ہوئے اصرار کرتے ہیں وہ غلط معلومات بھی شایع کی جائیں۔ یاد رکھیے کہ نقطۂ نظر کا اختلاف اور غلط نظریات کا پھیلاؤ دو الگ باتیں ہیں۔ ایک مدیر نقطۂ نظر کے اختلاف کے باوجود بھی آپ کی تحریر شایع کرنے کا پابند ہوتا ہے لیکن غلط معلومات اور نظریات کے پرچار کو روکنا بھی مدیر کی ذمے داری ہے۔

دھمکی آمیز بلاگر

دھمکی دینے والے بلاگرز میں زیادہ تر سیاسی نظریاتی کارکن ہوتے ہیں، جن کی تحاریر کسی نہ کسی وجہ سے مسترد کردی جاتی ہیں۔ زیادہ تر وجہ شخصیت پرستی کی حد تک مبالغہ آرائی ہوتی ہے، جو ظاہر ہے سچائی پر مبنی نہیں ہوتی۔ تحریر مسترد ہونے کے بعد یہ دھمکی آمیز بلاگرز مدیر کا سکون برباد کرنے میں واقعی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ لیکن ’’جب اوکھلی میں سر دیا تو موسلوں سے کیا ڈرنا‘‘۔ مدیر کو یہ سب بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

خودساختہ دانشور بلاگر

ٹی وی کے ٹاک شو دیکھ دیکھ کر آج کل ہر کسی کو خودساختہ دانشور بننے کا شوق چڑھا ہے۔ کچھ ایسا برا بھی شوق نہیں، لیکن تحریر میں دانشمندی دکھائی بھی تو دے۔ لیکن ہوتا کچھ یوں ہے کہ خودساختہ دانشور بلاگرز اپنے بے ربط خیالات کو الٹے سیدھی تحریر میں سپرد قلم کردیتے ہیں۔ کچھ عالم فاضل نظر آنے کی کوشش میں اردو لغت سے مشکل ترین الفاظ ڈھونڈ کرلاتے ہیں، جن کو برتنے کا علم خود ان بلاگرز کو بھی نہیں ہوتا۔ نتیجتاً تحریر مزید گنجلک اور ناقابل فہم ہوجاتی ہے۔ جب ان بلاگرز کی تصحیح کی جائے تو برا مان جاتے ہیں اور موقف وہی اختیار کرتے ہیں کہ ’’میں سب جانتا ہوں، مجھے سب علم ہے‘‘۔ نئے لکھنے والے یہ بات گرہ میں باندھ لیں کہ کوئی بھی تحریر جس قدر عام فہم زبان میں لکھی جائے گی اتنی ہی قابل قبول ہوگی۔ کسی بھی اخبار اور اب ویب سائٹ کے پڑھنے والوں میں ہر طبقہ فکر کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر ایک کو ذہن میں رکھا جائے۔ عام فہم زبان کا مطلب یہ بھی نہ لیا جائے کہ تحریر میں بہت زیادہ عامیانہ (بیہودہ) اصطلاحات کا استعمال کیا جائے۔ تحریر کا معیار ہر حال میں برقرار رہنا چاہیے۔

اشتہاری بلاگر

یہ بلاگرز مخصوص ایجنڈے پر کام کررہے ہوتے ہیں، یا تو کسی ادارے یا پارٹی کی جانب سے انھیں موضوع دیا جاتا ہے (معاوضہ یا بلامعاوضہ) اور یہ اس ادارے، پارٹی یا پروڈکٹ کی شان میں تحریر لکھ کر روانہ کردیتے ہیں۔ اس طرح کے اشتہاری بلاگ جو کہ اصل میں ’’کارپوریٹ کانٹینٹ‘‘ یا ’’نیٹیو کانٹینٹ‘‘ ہوتا ہے، قبول نہیں کیے جاتے۔ ایسی تحریریں صرف مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بامعاوضہ شایع کی جاسکتی ہیں۔

اسائنمنٹ بلاگر

اس قسم میں ہمارے معصوم طلبا خاص کر ماس کمیونی کیشن کے طلبا آتے ہیں، جنھیں ٹیچرز کی جانب سے اسائمنٹ دے دیا جاتا ہے کہ انھیں لامحالہ اپنی تحاریر مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر شایع کروانی ہیں۔ اب ہوتا کچھ یوں ہے کہ جن دنوں طلبا کو یہ اسائمنٹ دیا جاتا ہے، ہمارے پاس ایک جیسے عنوانات اور تقریباً یکساں تحاریر کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ اس معاملے میں ہم طلبا سے زیادہ اساتذہ کو قصوروار ٹھہرائیں گے جو اسائمنٹ تو دے دیتے ہیں لیکن طلبا کو گائیڈلائن اور تربیت فراہم نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ ایک اسائمنٹ اور بلاگ میں کیا فرق ہوتا ہے، یہ تک طلبا کو نہیں بتایا جاتا۔ مجبوراً ہمیں وہ تحاریر بھی مسترد کرنی پڑتی ہیں۔

کچھ بلاگرز اور طلبا غلطی کرتے ہیں کہ ای میل کرتے ہوئے تمام تر متن سبجیکٹ لائن میں ہی لکھ دیتے ہیں۔ آپ اگر کسی ادارے کو ای میل کررہے ہیں تو آپ کو باقاعدہ ای میل کرنے کا طریقہ آنا چاہیے۔ سبجیکٹ لائن مختصر ہوتی ہے، جس میں آپ کو صرف تحریر کا عنوان یا اپنا مقصد مختصراً لکھنا چاہیے۔ باقی متن ای میل باڈی میں لکھا جائے۔

بلاگرز کی اور بھی قسمیں ہیں لیکن فی الحال اتنا ہی۔ اب کچھ باتیں بطورِ خاص ایکسپریس کے قارئین سے۔ آپ قارئین ہی ہمارے لیے سب سے زیادہ اہم ہیں۔ اگر قارئین نہ ہوں تو بلاگرز کی تحریریں محض صفحات سیاہ کرنے کے اور کچھ نہ ہوں۔ آپ قارئین کی توجہ اور فیڈ بیک ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ہمارے قارئین بہت باشعور ہیں۔ اور کچھ تو یقیناً اتنے صاحبِ علم ہیں کہ خود بہت اچھا لکھ سکتے ہیں۔ بس کسی وجہ یا جھجک کے باعث اپنی تحریر روانہ کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔

صحافتی میدان کے 20 سال میں بہت کچھ سیکھا، سمجھا اور جانا، سیکھنے کے مراحل ختم نہیں ہوئے بلکہ ہر دن ایک نیا پہلو وا ہوتا ہے۔ ایکسپریس بلاگ سیکشن کے انچارج سے قبل ایکسپریس اخبار کے ایڈیٹوریل اور نقطہ نظر صفحے پر کئی سال کالم نگاروں اور قارئین کے خطوط کی نوک پلک سنوارتا رہا ہوں۔ کئی نئے لکھنے والوں کو ایکسپریس اخبار کے ذریعے متعارف کروایا۔ اس دور میں جو طلبا ایڈیٹر کی ڈاک کے ذریعے لکھنے کے میدان میں آئے آج ان میں بہت سے مشہور کالم نگار اور بلاگر بن چکے ہیں۔ کچھ مختلف میڈیا ہاؤسز میں اینکر پرسن کی ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ ایکسپریس میڈیا کا ہمیشہ یہ مطمع نظر رہا ہے کہ نئے لکھنے والوں اور باصلاحیت افراد کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انھیں ایکسپریس جیسے بڑے میڈیم پر سپورٹ کیا جائے تاکہ قوم کے یہ باصلاحیت افراد ناقدری کی دھول میں گم نہ ہوجائیں۔

ہم ایسے تمام قارئین اور طلبا کو دعوت دیتے ہیں کہ ایکسپریس بلاگز میں طبع آزمائی کیجئے۔ آپ کی تحریر کی نوک پلک درست کرنا ہمارے ذمے داری ہے۔ ہوسکتا ہے آپ کی کچھ تحاریر مسترد بھی ہوں لیکن کبھی بھی ناکامی سے نہ گھبرائیے۔ وقت کے ساتھ اور ہدایات پر عمل پیرا ہوکر آپ کی تحریر میں نکھار آتا جائے گا۔

Leave a Reply