تازہ ترین
>>ایف بی آر نے ستمبر کیلئےمقرر 795 ارب ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرلیا>>نوازشریف کی واپسی پرقانون اپناراستہ اختیارکرے، عمران خان کا مقابلہ فوج نہیں ریاست کے ساتھ ہے، انوارالحق کاکڑ>>60 ڈالر فی بیرل تیل کا طویل مدتی معاہدہ، پاکستانی وفد 10 اکتوبر کو روس روانہ ہوگا>>بلوچستان میں ایم ڈی کیٹ کے پرچے آﺅٹ ہونا انتظامی نااہلی ہے، ٹیسٹ منسوخ کیا جائے، پی ایس ایف>>ڈیرہ بگٹی سے اغوا 6 فٹبالرز میں 4 بازیاب، گھروں تک پہنچا دیا گیا>>مستونگ بم دھماکہ انتظامیہ کی نااہلی ہے، حکومت عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہوگئی، اسرار زہری>>مستونگ خودکش دھماکے کا مقدمہ نامعلوم حملہ آوروں کیخلاف درج>>جامعہ تربت کا وائس چانسلر کی زیرصدارت ایڈوانسڈ سٹڈیز اینڈ ریسرچ بورڈ کا 17 ویں اجلاس>>دھماکے سے متعلق تمام حقائق سامنے لائے جائیں گے، نگران وزیراعلیٰ بلوچستان>>کوئٹہ ،کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور کا ٹراما سینٹر کا دورہ، زخمیوں کو سی ایم ایچ منتقل کرنے کی ہدایت

فیس بک اور انسٹاگرام کا صارفین کی فیڈ پر پوسٹس میں اضافے کا اعلان

, ,

کیلیفورنیا: میٹا کی ذیلی کمپنیاں انسٹاگرام اور فیس بک اپنے صارفین کی فیڈ پر ان لوگوں کی پوسٹس میں ڈرامائی اضافہ کرنے جارہی ہیں جن کو وہ فالو نہیں کرتے۔

میٹا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مارک زکربرگ کے مطابق مصنوعی ذہانت کی جانب سے تجویز کردہ کانٹینٹ کی مقدار اور لوگوں، گروپس یا اکاؤنٹس کی جانب سے آنے والے مواد ، جو درحقیقت لوگوں کی مرضی سے ظاہر نہیں ہوگا، اس کی مقدار2023ء کے آخر تک دُگنی ہوجائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کمپنی ایک ’ڈسکوری انجن‘ بنانے جارہی تھی جس کا مقصد لوگوں دیگر قسم کا مواد دِکھانا تھا۔

مارک زکربرگ کی جانب سے یہ اعلان میٹا کے مشکل معاشی حالات کے دوران کیا۔ تاریخ میں یہ پہلی بار ایساہوا ہے کہ میٹا کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے جس کا سبب کمزور معیشت، اشتہارات پر کم خرچ کیے گئے پیسے اور ٹِک ٹاک کے مقابلے کو قرار دیا گیا۔

لیکن زکربرگ کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب انسٹاگرام کی جانب کیے جانے والے اقدامات پر تنازع چل رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک وائرل تحریک شروع کی گئی جس میں انسٹاگرام پر ٹِک ٹاک بننے کی کوشش بند کرنے پر زور دیا گیا۔

مارک زکربرگ کا کہنا تھا کہ فی الوقت صارفین کی فیس بک فیڈ پر تقریباً 15 فی صد مواد تجاویز کے ذریعے آتا ہے۔ جبکہ انسٹاگرام پر یہ تعداد تھوڑی زیادہ ہے۔

Leave a Reply